چند دن پہلے عورتوں کے حقوق کے لیے ملک بھر میں “عورت آزادی مارچ” کیا گیا- جس میں پاکستان کے مختلف شہروں میں عورتوں نے پلےکارڈز اٹھا کر اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کی کوششیں کی۔

عورت کی آزاری کے لیے زمانہ قدیم سے جدوجہد جاری ہے- علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ‘روح عصر’ میں لکھتے ہیں ” فیثاغورث نے افلاطون سے دو سو برس پہلے عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینے پر اصرار کیا- اس کے درس میں جوان لڑکیاں بے تکلف اور بغیر حجاب کے شرکت کرتی تھیں“۔  اس سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ عورت مظلوم تھی اور مظلوم ہے۔

میں بذات خود عورت کی مظلومی تسلیم کرتا ہوں- ہمارا معاشرہ عورت کو بولنے کا نہیں صرف سننے اور سہنے کا حق دیتا ہے۔ عورت کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں جب کوئی معمولی کام کرے تو اسے “نر کا بچہ” کہ کر شاباش دی جاتی ہے۔ عورت کے ساتھ وہ سلوک ہوتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور دوسری طرف اگر حقیقی پہلو دیکھا جائے تو بسا اوقات ایسا عورت ہی عورت کے ساتھ کرتی ہے۔ مرد بھی اس میں برابر کا شریک ہے اور جواز مذہب و فرسودہ روایت کا دے کر خود کو اس جرم عظیم سے بری کردیتا ہے۔

خیر بات ہورہی تھی “عورت آزادی مارچ” کی تو اس مارچ میں دیسی لبرل اور فیمنسٹ عورتوں کی شرکت اور پلےکارڈز سے عورت کے مسائل میں کمی تو نہیں ہوئی البتہ مشکلات میں اضافے کاباعث بنی۔ ان کو عورت کے اصل مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ ان کے خیال اور فکر کے مطابق عورت کے اصل مسائل اور فیمن ازم “یہ گرم کرنا وہ گرم کرنا ہے”۔ عورت کے حقیقی مسائل اور مساوی حقوق کے لیے بھی خواتین موجود تھیں جن کے مطالبات میں عورت کے لیے تعلیم، صحت، روزگار کے علاوہ ناانصافی اور معاشرتی رکاوٹیں سے نجات شامل تھے۔

ٹویٹر پر ایک امریکی نژاد پاکستانی خاتون کی ٹویٹ پڑھ رہا تھا جس میں وہ کہتی ہے کہ واشنگٹن (امریکہ) میں بھی عورتیں اپنے حقوق کی لیے گھروں سے نکلتی ہیں لیکن ان کے مسائل ہم سے مختلف ہیں اور اتنے مختلف جس کے بارے میں ہم شاید 500 سال کے بعد صرف سوچنا شروع کریں- کیونکہ ان کا شمار ترقی یافتہ دنیا میں ہوتا ہے۔ترقی یافتہ دنیا مابعدجدیدیت یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے دور میں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے معاشرے کا اس دور تک کے سفر میں عورت نے سفر بھی کیا اور کردار بھی ادا کیا۔

اس کے ساتھ ہی ڈیلویلپمینٹ تھیوری کہتی ہے” معاشرہ ایک اورگنزم کی طرح ہوتا ہے جس کا ہر حصہ اور ہر پہلو دوسرے حصوں اور پہلووں سے منسلک ہوتا ہے چنانچہ معاشرے کی ترقی صرف ایک حصے کی ترقی سے ممکن نہیں“۔عورت ہمارے معاشرے کا بہت اہم حصہ ہے۔ ہمارا معاشرہ یا سماج کی ترقی عورت کو بنیادی اور مساوی حقوق دیے بغیر  ممکن نہیں۔

یہ ہم سب کا سماجی، انسانی، اخلاقی، اسلامی اور معاشرتی فرض بنتا ہے کہ ہم اس خاص اور حساس مسئلے پر سوچیں ، سمجھیں اور اپنی عورتوں کو ان کے حقوق دلانے میں کردار ادا کریں۔ تعلیم، روزگار، انصاف، سازگار ماحول فراہم کرے کیونکہ صحت مند معاشرے کی جڑیں عورت سے جاملتی ہے۔ باشعور لوگ کہتے ہیں کہ” ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے لیکن ایک عورت کی تعلیم پورے معاشرے کی تعلیم ہے“ ۔اگر عورت کمزور ہو جائے گی تو معاشرہ خودبخود کمزور ہوجاتا ہے اور ہمارا معاشرہ کمزور نہیں بلکہ معذوری کی حالات میں ہے۔

عورت آزادی مارچ جیسی تحریکیں ہونی چاہیے اور ہم سب کو اس کی تائید کرنی چاہیے – عورت آزادی مارچ سے مراد صرف خواتین نہیں بلکہ باپ، بھائی،بیٹا اور شوہر ہونے کے ناطے یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کارخیر میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں – اس کے علاوہ ہر طبقے، برادری،علاقے سے بالاتر ہوکر عورت کی نمائندگی ہونی چاہیے- ان سب کے اوپر ایک نمائندہ گروہ ہو جو عورت کے حقوق کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرے اور وہ لوگ جو موم بتی اٹھا کر یا سڑک پر آتن کر کے اپنی آزادی ثابت کرنا چاہتے ہیں ان حضرات کو اس طرح کے حساس معاملات سے دور رکھنا چاہیے- ایسی غیر سنجیدہ روی اس تحریک کے لیے نہایت نقصان دہ ہے کیونکہ ایسے تجربات سے تحریک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔

Share.

About Author

Leave A Reply