ایک زمانے میں پاکستان میں پنجابی اور پشتو فلمیں بنا کرتی تھیں ، جن
پر زیادہ خرچہ تو نہیں ہوتا پر تماشائی بہت خوش ہو کر سینما گھروں سے باہر آتے تھے ، ان تمام فلموں میں فحش ناچ گانا اور ڈائیلاگز ہوا کرتے تھے جن پر تماشائی سیٹیاں بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے اور اپنے جذبات ان اداکاراؤں کے لیے بلا جھجھک ظاہر کرتے ۔ جیسے کہ وہ اداکارہ اس اسکرین سے انہیں دیکھ سکتی ہو ۔ پھر ان فلموں کے بعد ایک دور آیا جب فلمیں بس چند چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بنے چھوٹے چھوٹے سینما گھروں تک ہی محدود ہو گئیں ۔ اور بڑے شہروں میں سینما گھروں میں انڈین یا پھر انگریزی فلمیں دکھائی جانے لگیں جو لوگ بس وقت گزارنے کی حد تک دیکھنے چلے جاتے تھے ۔ اور اس میں اگر انڈیا پاکستان کشیدگی بڑھتی تو یہ فلمیں بھی اکثر بند کرا دیں جاتی۔ تو میڈیا کا جھکاؤ فلمیں بنانے سے زیادہ ڈراموں کی طرف پڑا ۔ پاکستان میں کئیں ایسے ڈرامے بنے جن کا نام اگر یہاں لینا شروع کیا جائے تو صفح کم پڑ جائیں ، خدا کی بستی سے لے کر آنگن ٹیڑھا تک ، ماروی سے لے کر الفاُء براوو چارلی تک ، اور چند سال پہلے بننے والے ڈراموں میں ہمسفر ، زندگی گلزار ہے جیسے کئیں ایک سے ایک خوبصورتی سے لکھا ہوا ڈرامہ ہماری ٹی وہ اسکرین کی زینت بنا رہا ۔ اس پورے عرصے میں پاکستانی ڈراموں کو جو پذیرائی ملی وہ نہ صرف پاکستان کی حد تک رہی بلکہ پڑوسی ممالک میں بھی ان ڈراموں نے خوب دھوم مچائی ، کیونکہ وہاں ڈراموں کے نام پر جو مزاق عوام کے ساتھ کیا جا رہا تھا ، پاکستانی ڈراموں نے جیسے ان کی کمر توڑ دی ۔

یہ سب ایک خوب صورت خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ، زندگی کے اتار چڑھاؤ جیسے ، پاکستانی انڈسٹری نے بھی ایک تاریخی دور دیکھا ۔ پر وہ کہتے ہیں نا کوا چلا ہنس کی چال ۔ پاکستان میں رائٹرز کی کمی اب بھی نہیں ہے ، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے رائٹرز اب آچکے ہیں پر مسئلہ انہیں موقع دینے کا ہے ۔ ڈرامہ انڈسٹری کا حال اب آپ کے سامنے ہے ، اگر کسی ایک چینل پر کوئی ایک کہانی لوگوں کو غلطی سے اچھی لگ بھی جائے تو اگلے ہی دن اسی کہانی پر دس اور ڈرامے آپ کو ہر چینل پر نظر آنے لگیں گے ۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب آپ کوالٹی سے زیادہ کوانٹٹی پر انحصار کرنے لگتے ہیں ۔

کچھ ایسا ہی ہوا پھر فلموں میں ، انڈیا میں اچھی فلمیں بنتی ہیں اور کچھ بری بھی ، بری فلمیں جن اداکاروں کو لے کر بنتی ہیں اکثر وہ فلمیں پاکستان میں ریلیز ہی نہیں کی جاتیں ، اور اس بات کا فائدہ اٹھا تی ہوئے ہمارے اپنے وطن کے چند گنتی کے لوگوں نے ، ان تمام فلاپ فلموں کو کاپی کر کے ایک نئے نام کے ساتھ پاکستان میں بنانا شروع کر دیا ۔ اب فلم اور ڈرامے کا فرق نظر کسے آتا کیونکہ وہی چہرہ جو یہاں ایک چینل پر ڈرامے کا ہیرو ہے اسے اگلے چینل پر فلم کا ہیرو بنا کر پیش کر دیا گیا ۔ یوں لوگوں کو فلم اور ڈرامے کا فرق ہی نظر نہیں آتا ۔ خیر ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے بھی بس وہیں لوگ جانے لگے جو ان اداکاروں کے دوست احباب تھے ، یا فلم بنانے والوں کے اس کے علاوہ عوام کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ، نہ ہی عوام کے لیے یہ فلمیں بن رہیں ہیں ۔ چند اشرافیہ نے اپنی انٹرٹینمنٹ کے لیے اس انڈسٹری میں پیسا لگایا اور اپنی مرضی کا مواد بنا بنا کر تھال میں سجا کر ایک دوسرے کو پیش کر دیا ۔ اب بات تو وہی ہوئی نا کہ ” ناچ نہ جانے ، آنگن ٹیڑھا ” ۔

Share.

About Author

Nazia Ahmed is a writer from Quetta. She is the winner of Urdu Blog category of VOB's Writing Contest held from June-July, 2019.

2 Comments

Leave A Reply