ڈونا جے ہاراوے نے  1984   میں دنیا کو  حیران کیا جب انہوں نے  برقی آلے سے چلنے والے جسم ( سائبرگ)  کا   ایک منشور شائع کیا ۔ ہاراوے کا مضمون آج بھی اتنا ہی مشہور اور متنازعہ ہے جتنا اس کی اشاعت کے وقت تھا۔ اس کی مقبولیت کے پیچھے وہ انقلابی خیال ہے جو اس نے مضمون میں تجویز کیا ہے۔ وہ صنف سے پاک دنیا کے اس اشارے کی تجویز کرتی ہے کہ جہاں  مشین اور ٹیکنالوجی بالآخر صنف کی بنیاد پر تقسیم کو مٹا دے گی۔ اس کی اشاعت کے دو دہائیوں کے بعد ٹیکنالوجی کی بے تحاشا ترقی پر غور کرتے ہوئے ، ہراوے کے مضمون کی روشنی میں آج ایک سوال پر غور کیا جانا چاہئے کہ  صنف  کی تقسیم سے پاک دنیا کو ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ہاروے نے سائبرگ کی تعریف “مشینوں اور حیاتیات کی ہائبرڈ” کے طور پر کی ہے۔ وہ تجویز کرتیں ہیں  کہ انسانی جسموں کی توڑ پھوڑ بالآخر صنف سے پاک دنیا کی طرف لے جائے گی۔ تاہم  کیا مونث خصوصیات والی غیر قانونی اولاد کو مردانہ خصوصیات  والی اولاد کی طرح کا درجہ دیا جائے گا؟

یہ  اکیسویں صدی ہے  اور دنیا ابھی تک خواتین کیلئے  جسمانی طور پر اور مجازی دائرے میں ایک غیر محفوظ جگہ ہے۔ جنسی ہراسانی  جس نے خواتین کو حقیقی زندگی میں صدیوں سے پریشان کر رکھا ہے ، ڈیجیٹل دنیا میں بھی  ان کا پیچھا کیا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارم پر  خواتین کو ہراساں کرنے کے بہت سے عوامل میں سے ایک خواتین صارفین کی نہ ہونے کے برابر تعداد ہے ، جو خواتین کو اقلیت  بناتی ہے اور  انہیں آن لائن ہراسانی  کے  زیادہ خطرے  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم  یہ اس سے  کہیں زیادہ   ڈیجیٹل خواندگی کی کمی اور انفرادی حقوق کے تحفظ کے بارے میں معلومات کا فقدان ہے ۔ جو جنسی طور پر ہراساں کرنے کو معمول بنا  دیتا ہے  اور سوشل میڈیا پر جنسی زیادتی کی تصاویر اور ویڈیوز پھیلاتا ہے۔

آسٹریلیا میں  2016 ء  میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق  30  سال سے کم عمر کی ٪ 76 خواتین کو کسی نہ کسی طرح آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا  کرنا پڑا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی اسکول ، کالج  اور یونیورسٹی کے طلبا کو آن لائن جنسی ہراسانی کا سامنا  ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ پوری دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اگرچہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ مرد بھی آن لائن ہراسمنٹ کا شکار  ہوجاتے ہیں  لیکن خواتین کے لئے ہراساں کرنے کی نوعیت زیادہ شدید ہے اور ان کی ذہنی صحت پر بھی اس کے سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔

خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی  مختلف اقسام   میں دھمکی دینا ، جنسی تبصرے کرنا ، ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کو آن لائن پھیلانا اور جسمانی تشدد کو بھڑکانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پوری دنیا میں  ان سب وجوہات کی بنا پر خواتین نے خودکشی کی ہے۔ پاکستان کی مشہور سوشل  میڈیا اسٹار  قندیل بلوچ کو اپنی باغی شخصیت کی وجہ سے  آن لائن  ہر طرح کی دھمکیوں اور بدسلوکی  کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے آپ کو جس طرح سے سوشل میڈیا پر پیش کیا اس نے نہ صرف معاشرتی اصولوں کو چیلنج کیا بلکہ بالآخر اس کا نتیجہ  بھائی  کے ہاتھوں انکے   قتل کی صورت میں نکلا۔

جنسی تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر کے نتائج زیادہ سنگین ہیں۔ کچھ عرصہ قبل  ایک شخص نے دو خواتین کو  بلوچستان کے شہر تربت میں گھومنے پھرنے پر سزا دینے کی   دھمکیوں پر مبنی   ویڈیو جاری کی۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون نے ویڈیو بنانے والے کو رکنے کی التجا کی ہے  اور دوسری اس ویڈیو بنانے والے کے لئے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے کہتی ہے  کہ  “اس نے  دوبارہ  ایسی حرکتیں نہ کرنے کی قسم کھائی ہے”۔ ویڈیو بنانے والا  خاتون کا نام،  اس کا پتہ اور ان کی زندگی کے بارے میں کچھ ذاتی تفصیلات شیئر کرتا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد  لوگوں نے  ہر طرح کے سوالات اٹھانا شروع کر دیے جن میں خواتین کی آزادی  اور اس  خاندان کی ساکھ   ہے جو  ان دو خواتین کی حرکتوں سے  خراب ہوئی ہے۔ان دونوں معاملات میں صنف ، تشدد اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ لوگ متاثرین کو  دبانے کیلئے ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کو بڑے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زیادتی کے اسطرح کے معاملات کے   آخر میں غیرت کے نام پر قتل اور خود کشی ہے۔ اس طرح کے مہلک انجام دینے والے عوامل کی وجوہات میں  خاندان کی مدد کا فقدان ، الزام تراشی اور عزت کھونے کا خدشہ  شامل ہیں۔

 جن لوگوں کی ویڈیو زاور تشدد کی تصاویر  گردش کرتی ہیں ان پر تکلیف دہ اثر پڑ سکتا ہے۔ ہر ایک لائیک ، شیئر اور کمنٹ  متاثرہ شخص کیلئے تکلیف دہ  ہے اور وہ مسلسل اس کا شکار رہتا ہے۔ جنسی زیادتی کی ویڈیو ز اور تصاویر کے پھیلاؤ سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے والے افراد کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔

سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے سوشل میڈیا میں خواتین کی کم شرکت پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ خواتین کی اکثریت پریشان ہونے کے خوف سے اپنا اصلی نام  اور نہ ہی اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتیں ہیں۔ پاکستان  ان بہت سارے ممالک میں سے ایک ہے جہاں  سائبر ہراسمنٹ  قانون  موجود ہے۔ آئین کا آرٹیکل 15 تمام شہریوں کو صنف سے قطع نظر رازداری کا حق دیتا ہے۔ الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے  ایکٹ میں آن لائن ہراساں کرنے کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں تصاویر  اور ویڈیوز کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔ تاہم  ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی طرف سے 2016 میں کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں٪  72خواتین سائبر ہراسمنٹ کے قانون کے وجود سے واقف نہیں ہیں۔

سائبر ہراسمنٹ  ہمیشہ ہی ایک معمولی مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے انکار کرتے رہے ہیں کہ اس کے نتائج ڈیجیٹل دنیا  سے آگے نکلتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین محض اپنے  سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیتی ہیں۔ تاہم  سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنا صرف ایک عارضی حل ہے کیونکہ خواتین کو  سوشل میڈیا سے غیر موجودگی کے باوجود بھی   ہراسمنٹ کا سامنا  کرنا پڑسکتا ہے۔ ڈی آر ایف کی تحقیق میں حصہ لینے والے جواب دہندگان میں سے ٪48  ایسے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے ہراساں ہونے کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال بند کردیا۔  خواتین خود کو کسی ایسی چیز سے متصادم پاتی ہیں جو جدید دنیا کے مختلف  رویوں پر حاوی ہے۔ سوشل میڈیا  اظہار رائے   کا ایک آخری پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ کاروبار کرتے ہوئے  معیشت میں شامل ہوں اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ سائبر ہراسمنٹ نہ صرف خواتین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکتا ہے بلکہ ان سے معاشی طور پر آزاد ہونے کا موقع بھی حاصل کرتا ہے۔؎اگر جنسی تشدد کو اسی طرح سے معمول پر لانے کا سلسلہ جاری رہا تو ہاراوے کا صنف  کے بغیر کا  مستقبل ممکن نہیں ہوگا۔ تصاویر اور ویڈیوز کی طاقت بہت زیادہ ہے اور یہ طاقت زیادہ تر منفی طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس پلیٹ فارم  کا منفی استعمال اور اس میں تیار کردہ مواد  جنسی تشدد کی کارروائیوں کو معمول بناتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے لوگوں کی زندگی بہت آسان بنا دی ہے تاہم اس کے کچھ پہلوؤں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے ہر ایک کے لئے ایک محفوظ جگہ بنایا جاسکے۔

ترجمہ : سید حسیب حیدر

Gender, violence and technology

 

Share.

About Author

Hatoon Gul is a Turbat based YES alumna studying Social Development and Policy at Habib University, Karachi.

Leave A Reply