عام افراد اور روشن خیال اکابرین دونوں میں حالیہ انقلابی جذبات کا امنڈنا ایک ایسی ریاست کی ضمنی پیداوار ہے جس نے اپنی بقا کو برقر رکھنے کے لئے کچھ سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگرچہ مایوسی کی کوئی بھی سطح اسطرح کے خطرناک اقدامات کا جواز پیش نہیں کر سکتی لیکن اس طرح کی مایوسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا کوئی متبادل نہیں ہے۔ قریب سے معائنہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ ان جذبات نے درجہ قوو یا کے(Status Quo) سے متعلق مریضانہ نفرت کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل کو ظاہر کیا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ خصوصی طور پر دانشور طبقے کو درپیش ہے جو کہ بظاہر بیزار اور مایوس جوا سٹیٹس کو کی مراعات سے لطف اندوز اور ناراض دونوں ہوتے ہیں۔ ان کے موقف کی یہ ستم ظریفی ہے کہ وہ پھل چاہتے ہیں اور درخت کو ناراض کرتے ہیں۔ ان انقلابی نظریات کے کرایہ داروں کو مکمل طور پر اپنانے یا انقلاب کے علاوہ کوئی دوسرا حل تجویز کرنے میں ناکامی انکے اپنے اندر بنیادی تنازعہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگرچہ شناخت کے بحران کا مسئلہ انسانیت کی طرح پرانا ہے لیکن اس سے مکمل انکار کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ان حلقوں میں شناخت کا افسانہ غالب ہے لیکن جس چیز کو وہ تسلیم کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی اقدار یا اصولوں کے مشترکہ سیٹ کی بجائے صرف دوسروں کیلئے مریضانہ نفرت نے ہی انکو اکٹھا رکھا ہوا ہے۔
شناخت کے اس مسئلے کے پیچھے ان انقلابی حلقوں میں رائج مروجہ نظریات ہیں۔ اگر ہم اسے ایک کمرے میں رکھیں تو انقلاب کے معنی لینے میں انکے اپنے تنازعات کافی حد تک تشدد کو متاثر کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ جبکہ دانشور طبقہ بنیادی طور پر اسباب پر مبنی معاشرے کے تصورات (اور قوم پرستی اور نسل پرستی کی زیادہ پیچیدہ شکلوں) کی تلاش میں ہے لیکن عام لوگوں کے انقلابی جذبات کا روایتی قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہب پرستی سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں متضاد جذبات کی حامل انقلابی عوام کی موجودگی کے پیش نظر انقلابوں کی کوئی بھی مقدار اس تبدیلی کو لانے میں ناکافی ہو گی جو سب کے نظریات کے مطابق ہو۔ اس کا حتمی نتیجہ ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ ہوں گے جو ہر ایک سے نفرت کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے انگریزی ناول نگار جارج آرویل نے اپنے ناول “دی روڈ ٹو ویگن پیئر” میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ”ہر انقلابی نظریہ اپنی طاقت کا ایک حصہ خفیہ یقین سے کھینچتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہی ہو سکتا”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشتر انقلابی صرف تصور کی بات کرتے ہیں اور تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کے تصورات غیر معقول خیالات کی حیثیت سے کام کرتے ہیں جو انہیں فوراً اور حقیقی پریشانیوں کے بارے میں جنکا انہیں سامنا ہے سوچنے سے روکتے ہیں۔ ان حقیقی پریشانیوں کے حل انکے تصوراتی خواب ہیں۔ فلاسفر سلاوج زیزک اپنی کتاب “ناامیدی کی جرات” میں اس آئیڈیا کا اظہار کرتا ہے جو کہ اس سے ملتا جلتا ہے کہ “بائیں بازو والے سرمایہ دارانہ ثقافتی سامراج پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ اس خیال سے خوفزدہ ہیں کہ ان کے مطالعہ کا میدان سرمایہ داری کے زوال پر بے کار ہوسکتا ہے”۔ وہ ایک تصوراتی عجیب و غریب ملک کی سوچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ وہ کبھی انکی زندگی میں نہیں آئے گا۔
یہاں تک کہ جب یہ جذبات غیر معقول خیالات کی شکل اختیار نہیں کرتے ہیں تب بھی ان کی خود تعریفی میں کمی کیوجہ (Status Quo) اسٹیٹس کو، کو مشکل بنا دیتی ہے۔ زیزیک کے لئے اصل چیلنج موجودہ نظام کو ختم کرنا نہیں بلکہ تعمیر کرنا ہے۔ ایلن مور کی مزاح نگاری پر مبنی اسی نام کی فلم وی فار وینڈیتا میں مرکزی کردار پارلیمنٹ کو اڑا دیتا ہے اور ایک ظالم حکومت کا خاتمہ کرتا ہے۔ مظاہرین پرجوش اتحاد کے دوران ایک لمحے پر اپنی شناخت صرف عارضی طور پر بھول کر اکٹھے ہوتے ہیں۔ فلم کا اختتام اسی جگہ پر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے؟ وہ جابرانہ حکومت کی جگہ کیسے لیں گے؟ جب مظاہرین کو اگلے دن یہ احساس ہو گا کہ وہ سب مختلف ہیں، جب ہر ایک اپنی نئی حکومت کا ورژن چاہتا ہو گا، تو انتشار پھیل جائے گا۔ جب ایسا ہوتا ہے تو کچھ شوق میں پچھلی جابرانہ حکومت کا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے وہ اجتماعی اعمال میں اخلاقیات کا سوال ہے۔ ہولوکاسٹ آرگنائزر ایڈولف ایچ مین کے بارے میں ہننا آرینڈٹ کا تبصرہ اس معاملے کے بارے میں ایک حتمی فیصلہ فراہم کرتا ہے: “ایک شخص ہونے سے انکار کرتے ہوئے ایچ مین نے انسان کی واحد سب سے بڑی سوچنے کی قابلیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور جسکے نتیجے میں وہ اب اس قابل نہیں رہا کہ اخلاقی فیصلے کر سکے”۔ ذاتی شناخت کو ترک کرنا اور نظریہ (انقلابی یا کسی اور طرح) کو اپنانا فرد کو اپنے لئے نہ سوچنے کا انتخاب فراہم کرتا ہے۔ در حقیقت اپنے آپ کیلئے سوچنے کی ذمہ داری سے بچنے کے لئے کسی متبادل کا خواب بہت ہی ‘نظریاتی بزدلی’ (زیزیک، ۲۰۱۷) کا ایک عمل ہے۔ ایسی غلط امیدوں کے وعدے کے بارے میں حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے حقیقی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیورجیو اگامبین کی یہ ہمت تھی جب وہ کہتے ہیں “سوچ ناامیدی کی ہمت ہے۔”
واسٹ آوفکلورونگ میں، کانٹ نے انقلاب کے خیال کی جگہ روشن خیالی کو دی۔ “روشن خیالی انسان کی مصلحت سے رہائی ہے” (کانٹ، ۱۷۸۴)۔ مصلحت کسی کی سوچنے کی صلاحیتوں کو ہتھیار ڈالنے اور دوسروں کو ان کے لئے فیصلہ کرنے دینے کا شعوری عمل ہے۔ اگر کوئی اور میرے لئے کام کر رہا ہے تو میں کیوں ذمہ داری قبول کروں؟ مسئلہ سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ سوچنے کی ہمت کی کمی ہے۔ کانٹ، جیورجیو اگامبین اور زائیزک بھی مختلف مواقع پر اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کانٹ کے نزدیک، انقلاب کا نظریہ اجتماعی کارروائی (جو اخلاقیات سے مبرا نہیں) کی بنیاد پر ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے تبدیلی کو سست ہونا پڑے گا۔ انقلابات کبھی بھی مستقل تبدیلی نہیں لائیں گے۔ تشدد اس کا واحد مضبوط مقدمہ ہے۔ ہمارے پاس واحد حل آزادانہ اور اخلاقی طور پر سوچنا ہے۔ ہم میں کسی بھی گروہ یا نظریہ سے آزاد، ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ہمت ہونی چاہیئے۔ اس طرح کی اخلاقی خوبی ہی انفرادی اور معاشرتی بہبود کو فروغ دینے کا واحد حل ہے (کوکورا، ۲۰۱۹)۔
انقلابات اور انقلابی رحجانات تضادات اور نااہلیوں سے چھلنی ہوتے ہیں۔ آخری نتیجہ ہمیشہ نفرت اور تشدد ہے۔ خود کو کسی نظریے کے حوالے کرنا ذاتی تشخص اور انفرادیت کو مٹا دیتا ہے، جو صحت مند اور خوشحال معاشروں کی بنیاد ہے۔ بلوچستان کو انقلاب کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اخلاقی طور پر ذمہ دار نوجوانوں کی ضرورت ہے، ایسے نوجوان جو عقائد اور انقلابات سے پاک ہوں۔ ایسے جرات مند نوجوان جو اپنے بارے میں سوچ سکیں۔ باقی سب کچھ بعد میں آنا چاہیئے۔