ایک قصہ جو ایک قانونی فلسفی زکریا چافی جونیئر نے 1919 میں جنگ کے دوران اپنے مضمون آزادی اظہار میں لکھا ، جو پیشہ ورانہ شعبوں میں اخلاقیات کی اہمیت کی جامع وضاحت کرتا ہے۔ یہ قصہ ایک ایسے شخص کے گرد گھومتا ہے جو ہوا میں بازو گھماتے ہوئے ایک شخص کی ناک پر مارتا ہے اور اپنے اس فعل کو تسلیم بھی کرتا ہے۔ جب اسے مقدمے کیلئے پیش کیا جاتا ہے تو بہت سے لوگ ایک آزاد ملک میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے مبینہ ملزم کے حقوق پر سوال اٹھاتے ہیں ۔ ملزم کے حامیوں کے جواب میں ، جج نے کہا ، “اپنے بازوؤں کو جھولنے کا آپ کا حق اسی جگہ ختم ہوجاتا ہے جہاں دوسرےآدمی کی ناک شروع ہوتی ہے۔”
مختصر طور پر یہ قصہ پیغام دیتا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی شکل میں کسی دستور کا ہونا ضروری ہے تاکہ امن کو برقرار رکھا جا سکے اور بازو جھولنے جیسی حرکت کسی شخص کی قربت کو متاثر نہ کرے۔ تاہم اخلاقیات کی خلاف ورزی کی مثالیں پیشہ ورانہ شعبوں میں عام سی بات ہیں جس میں بدقسمتی سے صحافت بھی شامل ہے۔ یہ خلاف ورزیاں الزامات ، بے عزتی اور طنز وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہیں۔
گھٹیا دلیلوں کی بدصورتی میں صحافت کا حقیقی مقصد عام طور پر دھندلا جاتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں پر رپورٹنگ اور واقعات کی تفصیل فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ صحافت کو اکثر چھتری کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن اسکی ایسی اقسام ہیں جو اسے مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کرتی ہیں جو بنیادی طور پر کسی صحافی کی مہارت یا شکست پر مرکوز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جرائم اور تنازعہ کا صحافی جنگ پر رپورٹ کرتا ہے ، اسی طرح ایک صحافی جو پاپ کلچر پر توجہ مرکوز کرتا ہے وہ تفریح پر رپورٹ کرتا ہے۔ جو چیز ان سب کو ایک لڑی میں پروتی ہے وہ ضابطہ اخلاق ہے جس کا ہر صحافی اپنے کیریئر کے آغاز میں عہد کرتا ہے۔ ضابطہ اخلاق کا فیصلہ مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے عمومی اتفاق رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پیشہ ورانہ میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے شعبے میں سینٹر فار انٹرنل میڈیا نامی ایک ادارہ ہے جو عالمی برادری کیلئے اخلاقی معیارات کی بقاء اور بہتری کو یقینی بناتا ہے۔
قومی ریگولیٹری ادارے صرف قومی میڈیا کے اداروں کیلئے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خبروں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے والی تنظیموں میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) ، اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) شامل ہیں ۔یہ ادارے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں خبروں اور میڈیا کے شعبے نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں نمایاں ترقی حاصل کی تھی۔ اس دور میں نجی میڈیا کے اداروں میں تین گنا اضافہ ہوا۔ نجی چینلز کیطرف سے پر کشش تنخواہوں کی آفرز کیوجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ صحافت کے شعبے کی طرف راغب ہوئے۔ تاہم تیزی کے ساتھ آنے کا نتیجہ کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔ اچھی ریٹنگ حاصل کرنے کیلئے سنسنی پھیلائی گئی جس نے نہ صرف صحافیوں بلکہ عام لوگوں کو بھی متاثر کیا۔
حکومت اور صحافیوں کے مابین ان ضوابط کے بارے میں ہمیشہ اختلافات پائے جاتے ہیں اور بعد میں اسے میڈیا کو دبانے کا حربہ قرار دیا جاتا ہے۔ اخبارات پر صحافیوں کو بڑی حد تک آزادی کی اجازت ہے تاہم کئی دہائیوں سے حکومتوں کو اس آزادی کیوجہ سے آنے والے نقصان پر قابو پانے کے لیے متبادل طریقے وضع کرنے پڑے ہیں۔ 1948 کے بہت سارے قواعد و ضوابط کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ 1948 میں پبلک سیفٹی آرڈیننس (پی ایس او) کے نفاذ کے بعد درجنوں اخبارات بند ہو گئے۔ پی ایس او نے ڈکٹیٹر ایوب خان کو نیوز ایجنسیوں پر پابندی لگانے اور اختلاف رکھنے والے صحافیوں کو گرفتار کرنے کی اجازت دی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو اپنی جمہوری اقدار کے خلاف گئے اور اخبارات پر پابندی لگا دی اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔
جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مزید سخت قوانین آئے جنہوں نے میڈیا کو محدود کر دیا۔ انہوں نے ریوائزڈ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس (آر پی پی او) متعارف کروایا، جس میں پی پی او ترامیم شامل تھیں۔ان قوانین کو ان پبلشرز کو ایذا پہنچانے کیلئے استعمال کیا گیا جو انکے منشور کیمطابق نہیں چلتے تھے۔
90 کی دہائی پریس کے لیے ایک انقلابی دور تھا کیونکہ اقتدار میں رہنے والے رہنما ؤں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے حکومتی اشتہارات کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اس شعبے کا مکمل فائدہ اٹھایا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی میڈیا کی آزادی دبانے پر مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل کوویڈ 19 کے حوالے سے ایک بریفنگ میں ان سے سوال و جواب کرنے کی کوشش میں غیر متعلقہ سوالات پوچھنے والے صحافیوں کو نا صرف جواب دیا بلکہ اپنی حکومت کو درپیش مشکلات کو چالاکی سے پیش کیا۔
خلاصہ یہ کہ میڈیا پر نرمی ہر حکومتی ادوار میں مختلف ہوتی ہے جس میں کچھ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے جبکہ کچھ تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ترجمہ: سید حسیب حیدر
Professional Journalism & Regulatory Bodies