بلوچستان کا ضلع چاغی، پہاڑوں سے گھیرا ہوا اور آبادی سے دور، جہاں 28 مئی، 1998 کو پاکستان نے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیۓ.اس دن پاکستان اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرکے ایٹمی طاقت کے حامل طاقتور ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا. یہ پوری امت مسلماء کیلۓ
ایک جشن کا سماء تھا اور خاص طور پر پاکستانی قوم کیلۓ ایک خاص لمحہ تھا.
11 مئی 1998 کو پوکھران میں تین بم دھماکے کر کے بھارت نے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا جس کے بعد حکومت پاکستان نے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 28 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا اور چاغی کے پہاڑوں پر نعرۂ تکبیر کی گونج میں ایٹمی تجربات کئے گۓ.
پاکستان نے 18 مئی 1974 کو ہونے والے ہندوستان کے ایٹمی ٹیسٹ کے بعد اپنے ایٹمی ہتھیار پروگرام کا آغاز کیا. 1977 میں، زیر زمین ایٹمی تجربہ کرنے کی جگہ اور تمام بنیادی سہولیات مہیا کرنے کا کام ادارہ جوہری توانائی پاکستان (پی اے ای سی) کی نگرانی میں سوشل ڈویلپمنٹ ورک کو سونپا گیا. دفاعی جرنل کے مطابق، ان جگہوں کو اس طرح ڈزائن کرنا تھا کہ وہ مختصر نوٹس پر استعمال کیے جا سکے اور دسمبر 1979 تک مکمل کیۓ جائیں.
زیر زمین ایٹمی تجربات کرنے کے لئے اہم شرائط کو دیکھتے ہوئے، ایک ایسا خشک پہاڑ تلاش کرنا لازمی تھا جو 20 کلو ٹن کا ایٹمی دھماکا برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو. لہذا، سائنسدانوں نے بلوچستان کے جنوبی علاقے خضدار، آواران، اور تربت اور مشرق کی جانب خاران – نوکنڈی کے درمیانی علاقوں کی مکمل جانچ کی. اس سروے کا یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ضلع چاغی کا راس کوہ ، آب و ہوا اور پانی کی سطح کے مطابق ایٹمی تجربات کے لئے بہتریں تھا.
ضلع چاغی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے جو جنوبی مغرب میں واقع ہے. اس کی سرحد شمال میں ایران اور جنوب میں افغانستان سے ملتی ہے. ضلع چاغئی جو چاغی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق 226،008 کی آبادی کا حامل ہے جس میں اکثریت بلوچ ہیں. یہ ضلع دو پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے ۔ راس کوہ ایسے پہاڑی سلسلے ہیں جو اپنے خشک اور شدید گرم موسم کی وجہ سے جوہری تجربات کے لۓ بہترین ثابت ہوئے.
تابکاری شعاعیں باہر نکلنے کی روک تھام کیلۓ ایٹمی تجربات زیرزمین کیۓ گۓ اور اس وجہ سے، خاص احتیاط کیلۓ سخت اقدامات کئے گئے جن میں سرنگوں کو کنکریٹ سے سیل کر دیا گیا. سائنسدانوں اور تکنیکی ماہرین کی طرف سے تفصیلی معائنے کے بعد سرنگوں کو سیل کرنے کے لئے تقریبا 6000 سیمنٹ بیگز استعمال کیے گئے. اس کے علاوہ، پورے ملک کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ، اور ایئر ایلرٹ نافذ کۓ گۓ اور بلآخر 28 مئی 1998 کو 3:16 پر بٹن دبا کر ایٹمی دھماکہ کیا گیا.
یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ گھنٹہ تھا کہ جس میں راس کوہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ کانپ اٹھا اور اپنا رنگ بدل دیا جو ایک کامیاب ایٹمی دھماکے کا ثبوت تھا. یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان دنیا کا ساتھواں ایٹمی طاقت بنا.
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹمی تجربات کیۓ گۓ اور اس کی حساسیت اور شدت کو مد نظر رکھتے ہوۓ خاص طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جس میں نہ صرف انسانی جان بلکہ نباتات اور حیوانات کو بھی مدنظر رکھا گیا.
جوہری تجربات کے نتیجے میں تابکاری اخراج کی وجہ سے علاقے میں جلد کی بیماریوں اور دیگر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بہت سے ایسے بیانات سامنے آئیں ہیں جو سچ پر مبنی نہیں. تاہم، ضلع کے حکام کے مطابق، اس علاقے کو ان تجربات کے بعد سیل کر دیا گیا اور وہاں کوئی تابکاری اخراج سامنے نہیں آئی جس نے ان بیانات کو غلط ثابت کر دیا. اس کے علاوہ، بلوچستان کا زیادہ تر حصہ بنجر زمین اور خشک موسم پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے سورج کی جلتی ہوئی شعاعیں جنھیں (یو وی) یعنی الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی کہا جاتا ہے، انسانی جلد کی خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہیں.
اس کے علاوہ، غیر ملکی شہری اکثر مختلف مقاصد کے لئے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کرتے ہیں، جو تابکاری شعاؤں کی صورت میں ممکن نہیں اور سب سے اہم بات، پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) کی سرمایہ کاری تابکاری شعاعوں سے متاثرہ صوبے میں کبھی نہیں کی جاتی.
بلوچستان کے لوگ پر امن اور محنتی ہیں اور اس طرح کی افواہوں کا مقصد پاکستان سے نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانا ہے جو بلوچستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے.اس لیۓ تحقیق اس طرح کی افواہوں سے بلوچستان اور پاکستان کو نقصان سے بچا سکتی ہے.
Translated By: Kashmala Barech
1 Comment
لیکن بلوچستان کے سب سے گرم علاقے سبی میں تو ایسی بیماریاں نہیں۔یو وی ریز صرف راسکوہ کی علاقے کو کیوں نشانے پہ رکھ رہی ہیں۔