مرد اور عورت کو ایک عرصے تک دو منفرد اور ایک دوسرے سے متضاد خصوصیات رکھنے والی مخلوق سمجھا گیا ہے ۔ ایک طرف، خواتین ہمدرد، نرم و ملائم دل کی مالک، خیال کرنے والی اور محبت کرنے والی سمجھی جاتی ہیں اور دوسری جانب، مرد مقابلہ باز، غصہ ور، طاقتور اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل سمجھے جاتے ہیں ۔مردوں اور خواتین کی اس دقیانوسی تخصیص کے باعث ان الفاظ کو مخصوص اجناس کے لیے مختص کر دیا گیا ہے ۔دور حاضر میں اس رجحان کے باعث تعصب کو فروغ ملا ہے، جس کے باعث دونوں جنسوں کی خصوصیات کو صرف و صرف صنفی نظریے کے تحت دیکھا جاتا ہے ۔اس بات کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ خواتین کو نا صرف دہشت گردی کے موضوع پر کی گئی تحقیق میں نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ عمومی طور پر محققین نے انہیں کنٹرول گروپ کے زمرے میں رکھا ہے ۔جبکہ اس بات سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے کہ خواتین معاشرے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں ۔ مگر رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی خواتین کو اس پدرانہ نظام میں صرف و صرف اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہے ۔اس لیے کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا اپنے مقاصد کے لیے عورت کا استعمال بہت آسان ہے خواتین کی اسی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک و طالبان پاکستان کے مولانا فضل اللہ نے بھی اپنے بہت سے مقاصد حاصل کیے۔

فضل اللہ نے، جو کہ فضل حیات کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس وقت کے اہم ذریعہ مواصلات، ایف ایم ریڈیو کے ذریعے انتہا پسندی کو عرواج پہ پہنچایا ۔اس نے غیر قانونی طور پر ایک ریڈیو چینل کا آغاز کیا جو بعد میں ملا ریڈیو کے نام سے جانا جاتا تھا ۔فضل اللہ نے ریڈیو کے ذریعے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کا پیغام خانگی سطح پر عام ہو اور نا صرف تعلیم حاصل کرنا ترک کر دیں بلکہ اپنے زیورات تک بیج کے اس کے مقصد کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالیں۔انتہا پسندی کو پالنے میں ان کے کردار کے علاوہ ، خواتین کا استعمال بنیادی طور پر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر بنیادی طور پر نکل جانے والی صورتحال کا بہت حد تک فائدہ اٹھاسکتی ہیں اس سے متعدد دہشت گرد گروہوں کو خواتین خودکش بمباروں کے ساتھ بھاری حفاظتی علاقوں پر حملہ کرنے میں مدد ملی ہے۔اگر ہم ساختی عینکوں کے ذریعہ دہشت گردی میں خواتین کی شمولیت کا تجزیہ کریں تو ، یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ عورتیں مردوں کے بنیادی اصولوں کی بنیاد پر حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ دہشت گردی میں خواتین کی ہیرا پھیری کی جڑ پتہ لگانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک پدرانہ معاشرے میں خواتین کے کردار کو جانچا جائے

بزرگانہ نظام کے تحت خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خاندان کے مردوں کی پیروی کریں اور ان کی دیکھ بھال کریں ، اور اگر انھیں تکلیف پہنچتی ہے تو خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں استعمال کی جا سکتی ہیں خواتین کو مردوں کی ہر حال پیروی کرنے کا نظریہ بہت ساری خواتین کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں مردوں کے ساتھ شامل ہونے اور ان کا ساتھ دینے کی ترغیب دیتا ہے۔یہ سوال کہ آیا خواتین رضاکارانہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیتی ہیں یا پھر کسی بھی صورت میں استعمال کی جاتی ہیں۔

نکیتا ملک ، جو دہشت گردی اور نفرت پر مبنی تشدد کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تحقیقی ماہر ہیں ، تجویز کرتی ہیں کہ ایسی خواتین جو معاشرے میں نقصان کا شکار ہیں وہ دہشت گرد گروہوں کا شکار بن جاتی ہیں وہ خواتین جو گھریلو تشدد ، امتیازی سلوک اور نمائندگی کی کمی کے نتیجے میں الگ تھلگ ہیں وہ بنیادی طور پر اس سے متاثر ہوکر مسلح افواج میں شامل ہونے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں کہ وہ حقیقت سے قطع نظر زندگی کی مشکلات کو تبدیل کردیں گی۔

دہشت گردی کی ایک تنظیم نے لفظ جہاد کے استعمال سے اس بیانیے کو مزید تقویت ملی ہے ، جسں میں خواتین کے استحصال کے لئے جان بوجھ کر غلط بیانی کی گئی ہے۔ اگرچہ ملک کے نکات خواتین کے استحصال کے بارے میں دہشت گرد گروہوں کے اقدامات کی عکاسی کرتے ہیں ، لیکن یہ ان واقعات کی نشاندہی نہیں کرتی ہے جہاں خواتین دہشت گرد گروہوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔سب سے طویل عرصے سے ، دہشت پھیلانے میں خواتین کا کردار حمایتی رہا ہے۔ تاہم مرد زیادہ فعال کردار میں تبدیل ہوگئے ہیں

اس دعوے کی حمایت کرنے کے لئے متعدد مثالوں میں سے ایک مثال فیمل فا ئٹر کی ہے جس نے آزاد ریاست تامل ایلم کے لئے سری لنکا کی حکومت کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ گھر یلو سطح پر خواتین عسکریت پسند گروپوں کی ایک مثال جامعہ حفصہ کی خواتین سابق طالب علموں کی ہے جنھوں نے ایک ویڈیو میں داعش کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان متعدد شواہد اور خواتین کے بعض وجوہات سے وابستگی کی وجہ سے ان کے حصہ لینے کے دعوؤں کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ یہ خواتین رضاکارانہ طور پر شدت پسند گروہوں میں حصہ لیتی ہیں یا نہیں۔ ایک اور مثال میں وائرل ہونے والی سوشل میڈیا ویڈیو میں دہشت گردی کو فروغ دینے والی خواتین کی شبیہہ کو رول ماڈل بنا کرمرد کی لازمی پیروی عیاں کی گئی ہیں. جہاں ریحان بلوچ کی والدہ انہیں خودکش حملے کے لئے تیار کرتی دکھائی دے سکتی ہیں۔ ریحان بلوچ کی شناخت کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش بمبار کے طور پر کی گئی تھی جس کا مقصد گذشتہ سال اگست میں چاغی بلوچستان کے ضلع دالبندین میں سیندک کاپر گولڈ منصوبے کے ملازمین کو لے جانے والی بس پرحملہ کرنا تھا ۔ریحان بائیس سال کی عمر میں اپنی ماں کے ساتھ دہشتگر حملے کی تیاری کرتا دکھایا گیا جبکہ بی ایل اے کا سربراہ ریحان کا باپ ہے. ملا فضل اللہ اور ریحان کے کیس میں ناخواندگی اور شعور کی کمی دہشتگردوں کا آلہ کار بنی رہی

دہشت گردی کی کارروائیوں میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں بحث وسیع ہے ، اور بیشتر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر واضح نہیں ہے۔ اگر موجودہ بات چیت سے کوئی واضح بات سامنے آجاتی ہے تو یہ حقیقت ہے کہ تعلیم ، معاشرتی تحفظ کا نظام متحرک نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کا عسکریت پسندی میں کردار ادا کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے. عسکریت پسندوں کے تنظیموں کے خلاف ایک بہت بڑا ردعمل یہ ہوگا کہ خواتین تعلیم کے ذریعے دہشتگردی کے رجحان کے خلاف فعال کردار ادا کریں۔

ترجمہ: رابیل حق

If you want to read this article in English click the link Below

Women & Terrorism

Share.

About Author

Hatoon Gul is a Turbat based YES alumna studying Social Development and Policy at Habib University, Karachi.

Leave A Reply