5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا جو کہ جموں کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دیتا تھا. بھارتی حکومت کا یہ انتہائی غیر منصفانہ اقدام کشمیری عوام کی مشاورت کے بغیر تھا. بھارتی حکومت کے مطابق یہ اقدام مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب پہلا قدم ہے. جبکہ دوسری طرف انڈین کانگریس نے بھی اس معاملے کو چیلنج کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کیا ہے. یہ اس بات کا مظہر ہے کہ انکے اپنے ارکان پارلیمنٹ اور عدلیہ بھی اس اقدام کو غیر قانونی سمجھتے ہیں
یہ مسئلے کا حل کیسے ہو سکتا ہے جب کہ بھارتی حکومت نے مزید ہزاروں فوجی مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر دیے ہیں جبکہ پہلے ہی وادی میں 8 لاکھ بھارتی فوجی موجود ہے. یہ اسکا حل نہی ہو سکتا. ایک معروف بھارتی ٹی وی اینکر ارناب گوسوامی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مرنے کو تیار ہیں. یہ کسی طور مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا کہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت سے محروم کر دیا جائے. یہ قبضہ ہے. بھارت کی کشمیر میں حکومت نہی ہے بلکہ یہ ایک غاصبانہ قبضہ ہے
پاکستان نے اس اقدام کی ناصرف مذمت کی ہے بلکہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے. اقوام متحدہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین صبر کا مظاہرہ کریں اور اس مسئلے پر موجود دوطرفہ معاہدوں پر دوبارہ سے نظرثانی کریں. پاکستان نے انتہائی سخت ردعمل دکھاتے ہوئے بھارت کیساتھ ہر طرح کے تجارتی، سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں. ناصرف یہی بلکہ بھارتی ہائی کمشنر کو فوری ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا ہے. پاکستان نے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں بھی اٹھانے کا اعلان کیا ہے
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کشمیریوں کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے. تاہم حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح مسئلے کا سیاسی و سفارتی حل ہے
کشمیر کی طرح بھارت کی چند دوسری ریاستیں جیسے کہ آسام،ناگالینڈ،منی پور، سککم اور مزورام بھی آرٹیکل 371 کے تحت خصوصی حیثیت رکھتی ہیں. اس آرٹیکل کے تحت دوسری ریاستوں کے شہری یہاں مستقل رہائش پذیر نہی ہو سکتے ہیں. تو پھر کیوں کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت بھارت کیلئے مسئلہ ہے؟ کیا کشمیری عوام کی زمین کی کوئی اہمیت نہی ہے؟
بھارت ہمیشہ خود کو ایک سیکولر ریاست قرار دیتا ہے. تاہم حالیہ چند واقعات نے انکا مسلمان مخالف ایجنڈا بے نقاب کر دیا ہے. مسلمان مخالف ریلیاں بھارتیا جنتا پارٹی (بے جی پی) اور لوک سبھا کے ممبران کی سربراہی میں منعقد کی جا رہی ہیں. جس میں علی الاعلان ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر مبنی بیانات دیے جاتے ہیں
بھارتی حکومت کے نسل پرست نظریات کو کھلے عام اور مکمل طور پر جاننا ضروری ہے. یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ کیا ہے. یہ اخلاقی اور مذہبی انتہا پسندی ہے جو کہ ایک مذہب کی دوسرے مذہب پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے ہے. یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر بھارت یا پاکستان کی جیت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے. یہ کشمیری عوام کو سننے اور انہیں انکے حقوق دینے سے متعلق ہے
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ان لوگوں سے متعلق ہے جن کو انکی خواہش کے مطابق رہنے اور جینے کا حق دینے سے محروم کر دیا گیا ہے
بہت سے سوال موجود ہیں لیکن بھارتی حکومت کو اس سوال کا جواب دینا ہے کہ اگر یہ ایکشن کشمیری عوام کی بہتری کیلئے ہے جیسا کہ بھارتی ترجمان نے کہا تو کیا وجہ ہے کہ پوری وادی میں کرفیو کیوں نافذ ہے؟ کیوں شہریوں اور رہنماؤں کو انکے گھروں میں نظربند کر دیا گیا ہے؟ اسکا جواب سادہ اور آسان ہے. کیونکہ بھارتی حکومت جانتی ہے کہ ایک بھی کشمیری اس غیر قانونی غاصبانہ قبضے کی حمایت نہیں کرے گا