فنون لطیفہ میں جہاں ادب، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون کی اپنی اہمیت ہے وہاں فن مصوری اور خطاطی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان فنون پر مہارت رکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے۔
فنیات یا فنون فن کے مطالعے کو کہا جاتا ہے اور بنیادی طور پر اس سے مراد ایسا تخلیقی کام اور ہنر ہوتا ہے کہ جو کسی پیشہ ورانہ نقطۂ نظر کی بجائے انسان کی فطری صلاحیت سے زیادہ قریب ہوتا ہے، جہاں آرٹسٹ اپنی صلاحیت دکھانے کے لئیے بلکہ اپنے اندر چھپے جذبات کو زبان دینے کے لئیے استعمال کرتا ہے۔ اگر فن کی معنی دیکھی جائے تو یہ انگریزی زبان کالفظ ’’آرٹ‘‘جس کو اردوزبان میں ’’فن‘‘ بھی کہتے ہیں اور’’ہنر‘‘بھی کہاجاتاہے۔ان کی جمع ’’فنون وہنر‘‘یا’’آرٹس‘‘ ہے،۔ یعنی فن کو ہنر بھی کہاں جاتا ہے۔
خرم سہیل اپنے بلاگ میں آرٹ کی تعریف کچھ یوں کرتے ہے کہ آرٹ انسانی جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کاایک راستہ ہے۔‘‘ روس کاکلاسیکی ناول نگار ’’لیوٹالسٹائی‘‘ آرٹ کی تعریف بھی انھی معنوں میں کرتا ہے۔ ارسطو اپنی فلاسفی میں آرٹ کو ایک اچھی نقل سے تعبیر کرتا ہے۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر’’مارٹن ہائی ڈیگر‘‘آرٹ کو ایک ایسا طریقہ مانتا ہے،جس کے ذریعے کوئی اپنا آپ دوسروں تک پہنچائے۔‘‘
فن کی ابتداء اور پھر جس طرح سے وہ جدید فن تک کا ایک سفر طے کرتا ہے , ایک لمبی کہانی ہے ۔ قبل از تاریخ سے لے کرعہد حاضرتک ہمیں بہت سارے ادوار ملتے ہیں،جس میں آرٹ مختلف انداز میں تخلیق ہوا۔ قبل ازتاریخ میں روس،ہندوستان،چین، جاپان، کوریا، افریقہ، امریکااورآسڑیلیاجیسے خطوں میں آرٹ کے سراغ ملتے ہیں۔دیواروں پر نقش ونگار،ظروف،مجسمہ سازی اور پینٹنگز کے نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ آرٹ نے ہمیشہ انسانی توجہ کواپنی طرف مرکوز کیا۔
پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں بھی فن کے بہت سے شہکار موجود ہے۔ لکن اگر ہم اس کی تاریخ کو مطالعہ کے بجائے بلوچستان میں ابھی موجودہ دور میں اس کی اہمیت پر نظر ڈالے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آرٹ کو یا آرٹسٹ کو کوئی خاص یہچان نہیں دی گئی ۔ جبکہ بلوچستان میں فن سے منسلک لوگوں کی صلاحیتوں پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ ماضی قریب میں بلوچستان کے ساحل پر تھری ڈی آرٹ دیکھا گیا۔
سمندر کنارے ریت پر مصوری کرنے کو تھری ڈی بیچ سینڈ آرٹ کہا جاتا ہے،اس سے پہلے یہ آرٹ نیوزی لینڈ اور یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہے جہاں مقامی آرٹسٹ اپنے اپنے علاقوں کے ساحلی شہروں میں فن مصوری اور تصویر کشی کرتے رہے ہیں۔ریت پر مصوری کرنے کا آرٹ پھیلتا گیا اور اب بلوچستان کے خوبصورت ساحل تک پہنچ گیا ہے۔
اے آر وائے چینل کے رپورٹر نے اپنے نیوز پیکج میں ایسے آرٹسٹ کے فن سے متعارف کرایا جس نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان میں پہلی دفع تھری آرٹ کے شہکار دکھائے ۔پسنی سے تعلق رکھنے والے نوجوان زبیر مختار، حسین زیب اور بہار علی نے پسنی شہر کے ساحل کو ہی اپنا کینوس بنالیا ہے، یہ نوجوان سبز اور نیلگوں سمندر کنارے لیکن سمندر کی لہروں سے کچھ فاصلے پر نم ریت پر تھری ڈی آرٹ کے ذریعے مختلف اشیاء کے شاہکار بناتے ہیں۔
یہ نوجوان اور اس طرح کے ہزاروں اور نوجوان جو فن کو دل سے سمجھتے اور اس کی قدر کرتے ہیں ان کے فن کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس میں کمی کے بجائے مزید اظافہ ہوتا جائے ۔ اس کے علاوہ بھی بلوچستان میں فن سے جڑے لوگوں کی کئی
مثالیں ہے اگر ان کو مثب طریقہ سے اجاگر کیا جائے ۔
بلوچستان کے شہر قلات میں دو ننھے پینٹر محمد یاسین اور خدا بخش نے اپنے ہم عمروں اور دیگر لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ساتویں جماعت کے یہ دونوں طلبا بیک وقت فن مصوری، خطاطی اور پینٹگ پر عبور رکھتے ہیں۔
مگر حکومت کی طرف سے لاپرواہی اس فن کو پھلنے نہیں دے رہی۔ ضرورت ہے اس امر کی کہ اس فن کو زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے ۔ اور اس کے زریعے ساری دنیا کو پر امن بلوچستان کا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ اگر ( traditional art) کو فروغ دیا جائے اور بلوچستان کی ثقافت کو عام کیا جائے تو بلوچستان کے بارے میں غلط بنائی گئی رائے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
خوبصورت بلوچستان میں بہت سی خوبصورت جگہ ہیں جس کو آرٹسٹ رنگوں
میں منتقل کر کے دنیا کو اس کی خوبصورتی بتا سکتا ہے۔
فن کی تعلیم اور مہارت حاصل کرکے اپنے صوبہ کو جس طرح جمیل بلوچ فائدہ پہنچا رہا ویسے باقی آرٹسٹ کر سکتے ہیں ۔ جمیل بلوچ جو کہ اب لاہور میں پروفیسر ہے اپنے آرٹس میں اپنے صوبہ کی ثقافت اور خوبصورتی دکھاتے ہے ۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ فن کو اب لوگ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہیں ۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو فن کی قدر کرتےہیں ۔ وائس آف بلوچستان نے پچھلے دنوں گوادر اور بلوچستان کے باقی شہروں میں فن اور وال آرٹ کا انعقاد کرایا۔ اس طرح کے اقدامات سے لوگوں میں فن کی قدردانی آئے گی اور وہ لوگ جو اپنے اندر قابض چھپائے بیٹھے ہیں ان کو بھی موقع ملے گا۔ فن کے ماہر گمنام ذندگی گزار رہے ہیں ۔ایسے ہی ایک گمنام آرٹسٹ کے شہکار کی رپورٹ سما نیوز چینل نے دی ۔ جس کے مطابق گوادر کے آرٹسٹ حکومتی عدم توجہی کے باوجود اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت جتے ہوئے ہیں۔
گوادر کے لوگ صرف سادہ لوح ماہی گیر ہی نہیں بلکہ آرٹ بھی ان کی رگوں میں اسی طرح دوڑتی ہے جس طرح سمندر سے محبت ان کی شریانوں میں بہتی ہے،گوادر کے یہ آرٹسٹ محدود وسائل کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنے شوق کی تکمیل کر لیتے ہیں۔
اگر فن کو مثبت فروغ دیا جائے اور وہ ماہر فن جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئے مگر اپنے اندر فن کا سمندر لئے ہیں انکو بہترین موقع ملے گا کہ وہ اپنے کام کو مزید نکھار کر پیش کریں اور بلوچستان کے غریب ماہر فن اس کو اپنی کمائی کا زریعہ بھی بنا سکتے ہیں ۔ اگر فن کو اعلیٰ سطح پر متعارف کرایا جائے اور اس کے لئے مثبت کردار ادا کیا جائے تو یقیناً اس کا فائدہ صبح بلوچستان کو ہوگا کہ یہاں موجود وہ لوگ جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے اپنے کام کے ساتھ سامنے آکر دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دنگے ۔
3 Comments
Dear Nabila,
Its a great article. I am always been an admirer of efforts specifically which comes from our beautiful province of Balouchistan.
It is first time in history that VOB is making efforts in up raising of Bln.
Your article was great, but i felt some thrist remain in it.
If there would be some touch of artists from other medium too e.g electronic media as we have alot of great personalities or artists like Abid ali, Ayub Khosu, Zeba Bakhtiar etc.
There’s art of boat making in gawadar.etc etc
Govt always neglected those talented people, not only in Balouchistan but all over Pakistan and it’s a great need to recognize our heroes for a better nation.
It was my point of view, you can disagree.
Wish you a good luck. Keep it up the good work.
Regards,
Usman
Thank you usman its a honour for me that you liked the article, and I’m very glad you mentioned some of the very important points . I will make sure not to ignore my next articles
Regards nad best wishes
Nabila malik haya
بہت عمدہ تحریر ہے ۔۔۔