اس دنیا میں پہلی سانس لیتے ہی ہماری آنکھیں ایک ایسی دنیا سے متعارف ہو جاتی ہیں جس میں ہر ایک معجزہ پنہاں ہوتا ہے ۔ ہم ان معجزوں کا اصل مطلب تو نہیں سمجھتے مگر ایک منتشر انداز میں سوالات ہمارے لاشعور میں پیوست ہو جاتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ ہم اس دنیا سے آشنا ہو جاتے ہیں ۔ ہم لوگوں کی بنائی ہوئی بے تُکی سی زندگی سے واقفیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ ہمیں دنیا کے ظاہری معجزے روز مرہ کا معمول دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ہمارا تجسّس اندر سے آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے ۔ اور ہم دوسروں کی طرح اس دنیا کے اصل روپ سے ناواقف ہو جاتے ہیں ۔ جہاں ہر کوئی ذریعہ معاش کی فکر میں بھاگ دوڑ کرتے ہوئے اپنی زندگی تمام کر دیتے ہیں ۔ اور ایک بے معنی اور یکساں زندگی گزارنے کے عوض اسکے اصل معنی اور خوبصورتی کو کھو دیتے ہیں ۔
لیکن کبھی کبھار ہمارے لا شعور میں موجود سوالات ہمارے روبرو کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اور ہمارے سوئے ہوئے بچپن کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ یہ دنیا ہمیں واپس اس انداز کے ساتھ دکھائی دینے لگتی ہے جیسے ہم اس سے پہلی بار متعارف ہوئے ہوں۔ تب ہمیں اس دھند آلود حالت میں ایک دہلیز دکھائی دیتی ہے ۔ جسکا راستہ ہمارے عقل و شعور کی دہلیز سے ہو کر گزرتا ہے۔اسکے ساتھ ہی سوالوں کے شور و غل سے ہمارا سامنا ہو جاتا ہے۔
ان سوالوں کی شدّت اتنی سنگین ہوتی ہے کہ کچھ لوگ برداشت نہیں کر پاتے۔ اور اسے ممنوع قرار دیتے ہوئے الٹے پاؤں اس دہلیز پر واپس لوٹ جاتے ہیں اور ان سوالوں کے غل سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔وہ شعور کے کٹھن راستوں سے استفادہ حاصل کرنے کی بجائے اس سے پیچھا چھڑاتے ہیں۔ ہم اپنے شعور کو کیسے بروئےکار لا سکتے ہیں؟ یہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب اپنے ذہن پر پڑی گرد و غبار کو صاف کر لیں اور اپنے ذہن کو قابل استعمال بنائیں۔
اگر ان لوگوں کے بارے میں قیاس آرائی کریں جو اس راستے کی پیچیدگیوں سے عاجز ہو کر کبھی اتنی ہمّت نہیں دکھا پاتے کہ وہ اس دریچے میں جھانک کر اسکی خوبصورتی کو محسوس کرنے کی جسارت کر پائیں ۔
جب انکا سامنا ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو حقیقتت کی گہرائی سے آشنا ہو چکے ہوتے ہیں تو یہ بات انہیں کبھی نہ کبھی کھٹکتی ضرور ہے ۔ اور ان کے اندر کی بے چینی کو ہوا دیتی ہے ۔ وہ اس محرومی و شکست سے پرشان ہو کر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود کو اس بات کا یقین دلائیں دراصل وہ خود ہی اس احمقانہ سفر پر نہیں جانا چاہتے تھے ۔ وہ بے تکا سا راستہ صرف ناپختہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے لئے ہے جبکہ یہ حقیقت نہیں ہوتی ہے۔
میں نے بھی اس دروازے پر قدم رکھنے کی کوشش کی ۔ مگر سوالوں کے شور و غل نے مجھے اتنا پریشان کر دیا کہ جی میں آیا کہ میں بھی باقی لوگوں کی طرح الٹے قدم پلٹ جاؤں ۔ اور عام لوگوں کی طرح ایک پرسکون سی زندگی گزار سکوں ۔
مگر اگلے ہی لمحے مجھے احساس ہو جاتا ہے کہ واپس پلٹنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں جن سوالوں کے روبرو ہو چکی ہوں وہ سب میرے ذہن سے مِٹ جائیں گے ۔ یہ ہر قدم پر میرے سامنے آکھڑے ہوں گے اور مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دینگے ۔ کیا میں ان سوالات کے سامنے کسی حد تک کامیاب ہو جاؤنگی؟ کیا وہ میرے لئے پرسکون ہوں گے ؟ شاید اس بات کی ضمانت میں خود بھی نہیں دے سکتی ۔
زندگی کے آخری لمحوں میں جب سرد آہ کی طرح میرا ان سے واسطہ پڑیگا ۔ تو میں یہ بات ضرور سوچوں گی کہ اگر میں نے تھوڑی سی ہمّت دکھائی ہوتی اور اس راستے کو عبور کرنے کی طاقت خود میں پیدا کی ہوتی تو شاید میں اپنے مستقبل کے اس ہولناک زاویہ سے بچ پاتی، جسکے بارے میں سوچ کر ہی گھبرا جاتی ہوں کہ میری زندگی کا سرمایہ ایک بےمقصد اور فضول باب کے جیسا ہوگا۔ جسے شاید کوئی بھی پڑھنا نہ چاہے گا ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میں پچھتاوے کی اس آہ سے بچ پاونگی جو یہ سوچ کر آئے گی کہ میری زندگی اس سے بہتر ہو سکتی تھی میری زندگی کا ایک مطلب اور مقصد ہو سکتا تھا ۔
اگر میں نے لوگوں کی بھیڑ کی بجائے اپنے اندر کی آواز سنی ہوتی ۔ کیا ہوتا اگر میں اس راستے کو عبور کر لیتی ۔ ان سوالوں کا تعاقب کرتی جنہوں نے میری پوری زندگی افسردہ کر رکھی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ میں کوزمولوجسٹ بننا چاہتی ہوں۔ تاکہ میں اس دروازے کو عبور کرنے کے بعد ان سوالوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے وجود کو تلاش کر سکوں ۔ اس مظہرِ کائنات کے عمل تحریری کے بارے میں جان سکوں ۔
جب میرا وجود سوالوں کی بوچھاڑکی گرفت میں آکر مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دے گا اور میرے منتشر ذہن میں بار بار یہ سوالات گونجتے ہوئے مجھے ہلکان کردیں ۔ تب اس بات کا یقین ہو کہ میرے ان سوالوں کے جوابات کی تلاش میں میری اعانت کون کر سکتا ہے ۔ تب میں پورے وثوق کے ساتھ یہ جانتی ہونگی کہ وہ مظہر کائنات ہے۔
2 Comments
Bahot h khoob likha hy apny… Pehla qadam mubarak…..
These type of articles will inculcate very positive image to those who thinks we are lagging behind and they failed to listen there internal echoes….. Best of luck for your upcoming 😊
Bahot khoob….. pehla qadam mubarak
Really very impressive and different thinking….
These type of articles will inculcate the presence of real inspiring people who can lead the society in any domain they don’t care about the people that what the hell they are thinking and boosts their internal moral, and also helpful for those whom are failed to listen there internal echoes and strength ….. Best of luck for upcoming 😊